دورغلامی میں بھارت کی عوام جن حقوق سے محروم تھی، آزادی کے بعد ان حقوق کو بھارتی عوام کو فراہم کرنے اور ایک خوشحال بھارت کی بنیاد رکھنے کے لیے آئین تیار کیا گیا۔ بھارتی آئین بھارت کا اعلیٰ ترین قانون ہے، جسے 26 نومبر 1949 کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا اور 26 جنوری 1950 کو نافذ کیا گیا- یہ دن یومِ جمہوریہ کے طور پر منا کر آئین کی اہمیت کو یاد کیا جاتا ہے، جو بھارت کی جمہوری اقدار اور تنوع میں اتحاد کی علامت ہے۔
اسے دنیا کا سب سے جامع تحریری آئین مانا جاتا ہے۔ یہ بھارت کو ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری جمہوریہ قرار دیتا ہے۔
آئین ساز اسمبلی کا قیام 9 دسمبر 1946 کو ہوا، جس کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد تھے۔ اس میں389 کل اراکین شامل تھے، جو مختلف صوبوں اور ریاستوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ آزادی کے بعد، 15 اگست 1947 کو بھارت کی تقسیم کے سبب پاکستان کے اراکین نے اسمبلی چھوڑ دی۔ اس کے بعد اراکین کی تعداد 299 رہ گئی۔
آئین ساز اسمبلی کے اہم اراکین ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر)، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر (مسودہ کمیٹی کے صدر)، جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، کے۔ ایم۔ منشی، سر الاڈی کرشنا سوامی ائیر، شریمتی ہنسا مہتا، سروجنی نائیڈو، درگا بائی دیشمکھ وغیرہ شامل تھے
جس
میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت والی مسودہ کمیٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو "بھارتی آئین کے معمار" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کا قیام 29 اگست 1947 کو کیا گیا۔ اس میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر (صدر) اور
۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں کنہیا لال منشی، این گوپالا سوامی، آلادی کرشنا سوامی، سید محمد سعداللہ، اور ٹی ٹی کرشنا ماچاری شامل تھے اراکین شامل تھے۔ کمیٹی نے 2 سال، 11 ماہ، اور 18 دنوں میں اپنا کام مکمل کیا۔
بھارتی آئین کی ابتدائی ساخت 395 دفعات، 22 حصے اور 8 شیڈولز (موجودہ میں 12 شیڈولز) پر مشتمل تھی۔ اسے وقتاً فوقتاً بدلنے کے لیے لچکدار بنایا گیا ہے اور اب تک 100 سے زائد ترمیمات ہو چکی ہیں۔ آئین میں عدلیہ کو ایگزیکٹو اور مقننہ سے آزاد رکھا گیا ہے۔
آئین کی تمہید اس کے مقاصد کو بیان کرتی ہے، جس میں لکھا گیا ہے:
"ہم، بھارت کے لوگ، بھارت کو ایک مکمل خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری جمہوریہ بنانے اور اس کے تمام شہریوں کو انصاف (معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی)، خیالات، اظہار، یقین، عقیدہ اور عبادت کی آزادی؛ عزت اور مواقع کی برابری کو فروغ دینے؛ فرد کی عظمت اور قوم کی اتحاد و سالمیت کو یقینی بنانے والی بھائی چارگی کا عزم کرتے ہیں۔"
یہ تمہید 26 نومبر 1949 کو آئین ساز اسمبلی میں منظور کی گئی تھی۔ آئین کے ذریعے بھارتی شہریوں کو چھ اہم بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جیسے انصاف، آزادی، مساوات، مذہبی آزادی، استحصال کے خلاف تحفظ اور آئینی علاج کا حق۔
آئین کے رہنما اصول ریاستی پالیسیوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جو معاشرتی اور اقتصادی انصاف کو یقینی بناتے ہیں۔ آئین کے مطابق، بھارت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے، اور تمام مذاہب کو
مساوی احترام دیا جاتا ہے۔
* *آئین میں تعلیم سے متعلق دفعات*
*
بھارتی آئین میں تعلیم سے متعلق دفعات بنیادی طور پر حصہ III (بنیادی حقوق) اور حصہ IV (ریاستی پالیسی کے رہنما اصول) میں دی گئی ہیں۔ یہ دفعات درج ذیل ہیں:
1. دفعہ 21A:
بنیادی حق کے طور پر تعلیم کا حق 86ویں آئینی ترمیم (2002) کے ذریعے شامل کیا گیا۔ اس دفعہ کے تحت 6 سے 14 سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق فراہم کیا گیا ہے۔
2. دفعہ 19(1)(g):
ہر شہری کو اپنا پیشہ، تجارت یا کاروبار منتخب کرنے کا حق ہے، جس میں تعلیمی ادارے قائم کرنا بھی شامل ہے۔
3. حصہ IV - دفعہ 41:
ریاست کو ہدایت دی گئی ہے کہ دستیاب معاشی وسائل کے مطابق، تمام شہریوں کو تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کی کوشش کرے۔
4. دفعہ 45:
86ویں آئینی ترمیم سے پہلے یہ دفعہ 14 سال تک کے بچوں کو ابتدائی مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق تھی۔ ترمیم کے بعد اس کی نئی تعریف کی گئی: 6 سال سے کم عمر کے بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کی ذمہ داری ریاست پر ہے۔
5. دفعہ 46:
پسماندہ طبقات، خصوصی طور پر درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے خاص انتظامات:
ریاست ان کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو فروغ دے گی۔
6. دفعہ 29:
ہر شہری کو اپنی زبان، رسم الخط، یا ثقافت کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔
7. دفعہ 30:
اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
8. خصوصی قانون - حقِ تعلیم ایکٹ (RTE) 2009:
یہ قانون دفعہ 21A کے تحت نافذ کیا گیا، جو تعلیم کے حق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ ہر بچے کو مفت تعلیم کا حق۔
نجی اسکولوں میں 25% نشستیں پسماندہ طبقے کے بچوں کے لیے محفوظ۔
تعلیم کے معیار کو یقینی بنانا۔
* *آئین میں اقلیتوں سے متعلق دفعات*
بھارتی آئین میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے خصوصی آرٹیکل فراہم کی گئی ہیں۔ یہ آرٹیکل ان کی زبان، ثقافت، مذہب اور تعلیمی اداروں کے تحفظ اور ترقی کو یقینی بناتے ہیں۔ اقلیتوں سے متعلق اہم آرٹیکل درج ذیل ہیں:
1. آرٹیکل 29
کسی بھی طبقے کے شہریوں کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ دفعہ اقلیتوں کو ان کی ثقافتی اور تعلیمی شناخت کو برقرار رکھنے کا تحفظ دیتا ہے۔
2. آرٹیکل 30
اقلیتی برادریوں کو اپنے من پسند تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا خصوصی حق فراہم کرتا ہے۔ یہ حق لسانی اور مذہبی دونوں اقلیتوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ریاست ایسے اداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں کر سکتی۔
3. آرٹیکل 46
ریاست کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کے تعلیمی اور اقتصادی مفادات کو فروغ دے۔ اس میں اقلیتی طبقات کو ترجیح دی گئی ہے۔
4. آرٹیکل 15
مذہب، ذات، جنس، جائے پیدائش یا زبان کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا امتیاز ممنوع ہے۔ اقلیتوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے مقصد سے یہ دفعہ وضع کی گئی ہے۔
5. آرٹیکل 21A
6 سے 14 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ حق اقلیتی برادریوں کے بچوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
6. آرٹیکل 25-28
اقلیتوں کو اپنی مذہبی روایات اور عقائد پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس میں ان کے تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیمات کو محفوظ رکھنے کا حق بھی شامل ہے۔
7. آرٹیکل 19(1)(g)
ہر شہری کو اپنے پیشے یا تجارت کا انتخاب کرنے کا حق دیتا ہے، جس میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق بھی شامل ہے۔
بھارتی آئین نہ صرف ہمارے حقوق کو بلکہ ہمارے فرائض کو بھی واضح کرتا ہے۔ آئین میں بنیادی فرائض کا ذکر حصہ IV-A میں آرٹیکل 51A کے تحت کیا گیا ہے۔ ہر شہری پر یہ اخلاقی اور سماجی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین کے تئیں وفادار رہے اور اپنے فرائض کو ادا کرے۔
آئین کے تئیں وفاداری اور اس کے اصولوں پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ ایک مضبوط اور خوشحال بھارت کی تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ایک بھارتی شہری کے طور پر ہمارا یہ اخلاقی فرض ہے کہ ہم آئین کو صرف ایک قانونی کتاب نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی طرزِ زندگی کا حصہ بنائیں۔